واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت شیخ فریدالدین مسعودگنج شکر

رحمتہ اللہ علیہ

 

عظیم صوفی بزرگ اورشاعر۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  ۱۱۷۳ہجری  میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء واجداد  کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ سیرالعارفین (تصنیف ۱۳۱۱ ہجری  مطبوعہ رضوی دہلی) کے مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی کہتے ہیں کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب حضرت بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  کے مرشد کے وصال کے بعد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ  اور حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ  کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ   کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشیں ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے آئے۔شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ وہ کہتے ہیں:

فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈاء

دیہی روگ  نہ لگیے، پلے  سب کجھ  پاء

فریدا، برے کا بھلا کر تاکہ تمہارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے ہو تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو۔

پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔

حامد بن فضل جمالی کا کہنا ہے کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ   نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی ہزابارہ کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے عوامی رنگ میں رہتے ہوئے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔

پاکپتن کی عوامی زندگی بھی کوئی آسان نہ تھی کیونکہ وہاں بھی مذہب کا ٹھیکیدار ’قاضی‘ موجود تھا جو ہر طرح سے ان کو تکالیف پہنچانے پر تیار رہتا تھا۔ اس کے اکسانے پر لوگ آپ کی اولاد کو آزار پہنچاتے تھے لیکن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔قاضی کو اس پر بھی چین نہ آیا اور اس نے ملتان کے علماء کو اطلاع دی اور سوال کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص جو اہلِ علم ہے خود کو درویش کہلوائے، ہمیشہ مسجد میں رہے اور وہاں گانا سنے اور رقص کرے۔جب ان علماء نے بھی کچھ نہ کیا تو قاضی نے کسی کو دے دلا کر تیار کیا کہ وہ بابا فرید کو دوران عبادت ختم کر دے لیکن اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔

اس مشکلات کے باوجود حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ   نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔ میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ اچے چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ   کی عوام کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی دونوں ہی اعتبار سے محبت اور پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں فریدا خالق خلق میں، خلق وسے رب مانہہ مندا کس نوں آکھیے، جاں تس بن کوئی نانہہ (فریدا خدا مخلوق میں اور مخلوق خدا میں جاگزین ہے۔ کس کو برا کہیں جب تمہارے بغیر کوئی نہیں ہے)۔ فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کوئے جیوندیاں پیراں تھلے، مویاں اپر ہوئے (فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں پاؤں اس پر کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے پر یہ اوپر سے ڈھانپتی ہے)۔

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ  ۹۳ سال کی عمر پا کر ۱۲۶۶ ہجری  کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا: کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر کچے بانڈھے رکھیے کچر تائیں نیر دیوار پر اگا درخت کب تک حوصلہ مند رہےگا۔ کچے برتن میں کب تک پانی سنبھالا جا سکتا ہے۔